منگل 11 مارچ 2025 - 04:19

حوزہ نیوز ایجنسی |

از قلم: نجیب زیدی

وہ اک ملیکہ جو شہر مکہ میں رہ رہی تھی ۔

وہ ایک خاتون

جو جادہ حق کی زندگی تھی

وہ شاہزادی

جو خدمت خلق کر رہی تھی ۔

وہ جسکے گھر سے ہزار ہا لوگ پل رہے تھے

نہ جانے کتنے برہنہ انسان لباس پاکر بہل رہے تھے

نہ جانے کتنے ہی اونٹ غریب و نادار بستیوں تک

غذائیں پہنچا کے شاد آتے

شکم کی آتش بجھانے والے

اس ایک گھر پر نگاہ رکھتے

وہ جسکے گھر پہ ہر ایک دن کا نظارہ اکثر ہی مختلف تھا۔۔

ہر ایک سائل جو در پہ آتا

مراد اپنی وہ پاکے جاتا

وہ سبکی باتوں کو جان و دل بغور سے سنتی ۔

ہر ایک مشکل کو دور کرتی

دلاسہ دیتی سہارا بنتی

مسکرا کے کہتی

"کوئی ضرورت پڑے جو تم کو "

کسی بھی مشکل میں تم پھنسو گر

تو سیدھے اٹھ کر ادھر ہی آنا

یہ گھر تمہارا ہی اپنا گھر ہے ۔

***

وہ اک ملیکہ جو شہر مکہ میں رہ رہی تھی

وہ اب کہاں ہے ؟

پھر آج کتنے غریب و نادار

قطار اندر قطار

یہ کس کی راہوں کو تک رہے ہیں

غرور پرور امیر زادے

انہیں غریبوں کی آج عزت سے کھیلتے ہیں۔

غریب کوئی جو در پہ پہنچے

اسے حقارت سے دیکھتے ہیں

غریب و نادار اپنے اشکوں کو خود ہی پی کر یہ سوچتے ہیں

گناہ کیا ہے ہمارا آخر ؟

زمانہ ہم پہ ستم یہ ڈھائے

ہنسے ہمیں پر ہمیں رلائے

جہاں کا انداز ایسا کیوں ہے؟

غریب مرتے ہیں مرتے جائیں

کسی کو رغبت نہیں ہے ہم سے

یہ کیسا منظر ہے اس جہاں کا

تمام رشتے فقط امیروں سے نبھ رہے ہیں ۔

محل نما ان گھروں کے در پر

نہ جانے کتنے

برہنہ پا روز مر رہے ہیں

کہیں پہ ایسا بھی ہو رہا ہے

کہ ایک چھوٹی سی جھوپڑی میں بوقت افطار

چھوٹے بچے

اٹھا کے ہاتھوں کو کہہ رہے ہیں

وہ اک ملیکہ جو شہر مکہ میں رہ رہی تھی

وہ اب کہاں ہے ؟ ۔۔۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha